Menu
اللہ کی دائمی سنت اہل ایمان کی نصرت۔
(ندائے خلافت - 2025 | شمارہ نمبر 26)۔
بلاشبہ یہ اللہ کی دائمی اور ناقابلِ تغیّر سنت ہے کہ وہ اہل ایمان کی نصرت فرماتا اور کافروں کو ذلیل کردیتا ہے‘ جبکہ بظاہر حالات اس کے برعکس نظر آرہے ہوتے ہیں۔قرآن کریم بتلاتا ہے اللہ سبحانہ کی ہمیشہ جاری رہنے والی سنت کے نتائج ضرور ظاہر ہو کر رہتے ہیں‘مگر ان نتائج کے اظہار میں افراد انسانی کی عمریں مقیاس نہیں ہیں اور نہ تاریخ کا کوئی عارضی مرحلہ پیمانہ ہے۔کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت باطل وقتی طور پر کامیاب و کامران ہو کر روئے زمین کی غالب و کار فرما قوت بن جائے‘ لیکن یہ مرحلہ دائمی نہیں ہوتا بلکہ یہ دراصل ہمہ پہلو سنت اللہ کے اجرا کا ایک حصہ ہوتا ہے۔

باطل کی کارفرمائی کا یہ مرحلہ یا تو اس لیے آجاتاہے کہ اس مرحلے میں لوگوں کی باطل کے خلاف مزاحمت کی قوتیں ٹھٹھری ہوئی ہوتی ہیں اور ان میں باطل کے خلاف جہاد کرکے اسے ختم کردینے کا بُوتا نہیں ہوتا۔

’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔‘‘(الرعد:11)

اور کبھی اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ باطل کے ظلم کو انگیز کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں‘بلکہ اسے خوشگوار محسوس کرنے لگتے ہیں۔فرمان نبوی ﷺ ہے :’’ جیسے تم خود ہوگے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے۔‘‘(رواہ الحاکم)

اور کبھی ظلم و باطل خود ظالموں کی آزمائش کے لیے ہوتا ہے۔’’تاکہ وہ قیامت کے روز اپنے پورے بوجھ اٹھائیں۔‘‘(النمل:25)اور کبھی یہ مرحلۂ باطل و ظلم اس لیے آتا ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ مومنین کی جماعت کو چھانٹ کر علیحدہ فرمالے تاکہ وہ سلامتی ،استعداد اور قوت کے ساتھ حق کی ذمہ داری کو سنبھال سکیں۔جیسے سورۂ آل عمران(آیات 139تا141)میں فرمایا:’’دل شکستہ نہ ہو‘غم نہ کرو‘تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو۔اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہے ہیں۔تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی(راستی کے) گواہ ہوں کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں۔اور وہ اس آزمائش کے ذریعے سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کردینا چاہتا تھا۔‘‘

سید محمد قطب شہیدؒ (اسلام کا نظام تربیت)

Related Media