(ندائے خلافت - 2025 | شمارہ نمبر 22)۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ (کے چراغ)کی روشنی (اسلام) کو منہ سے(پھونک مارکر)بجھادیں۔حالانکہ اللہ اپنی روشنی کو پُوراکر کے رہے گا ،خواہ کا فر نا خوش ہی ہوں۔‘‘(الصّف:8)
اس آیت میں یہود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہودی کے بارے میں یہ بات کیوں کہی گئی کہ وہ اللہ کے نور کو گل کرنا چاہتے ہیں؟اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے جزیرہ نمائے عرب میں اس وقت مسلمانوں کے جو دشمن موجود تھے،ان پر ایک نگاہ ڈالنی ہوگی۔ان میں سے ایک تو مشرکین تھے جن کے سرخیل قریش مکہ تھے مگر یہ بہت بہادر اور جری لوگ تھے ،سامنے سے حملہ کرتے تھے، جبکہ دوسرے دشمن یہود تھے۔یہ انتہائی بزدل تھے۔ان کے بارے میں سورۂ حشر میں آیا ہے کہ یہ کبھی کھلے میدان میں مقابلہ نہیں کریں گے،ہاں چھپ کر قلعوں کے اندر سے پتھراؤ کریں گے۔ابو جہل نے تو اپنے باطل ’’دین‘‘ کے لیے بھی بہر حال گردن کٹوائی مگر ان میں اس کی ہمت نہیں۔یہ تو صرف پھونکوں سے کام چلانا چاہتے ہیں کیونکہ پروپیگنڈے اور سازشوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں۔مگر ان کی سازشوں اور پروپیگنڈےکے جواب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اللہ تعالیٰ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا چاہے یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو‘‘۔
آج کے حالات میں بھی اسی صورتحال کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔گویا
آگ ہے،اولادِ ابراہیم ہے،نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کؔسی کاامتحاں مقصود ہے؟
بعینہ یہی کیفیت یہود کی آج بھی ہے۔اس وقت صہونیت جس طرح اسلام کے اس نور کو بجھانے کی فکر میں ہے اور جس تیزی سے یہود اپنے منصوبے رو بہ عمل لارہے ہیں،اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ دنیا کی سب سے بڑی حکومت کے سر پر بھی وہی سوار ہیں۔انہوں نے اسلام کا راستہ روکنے کے لیے پوری دنیا میں اسلامی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کو ہوا بنا کر کھڑا کر دیا ہے۔
(ڈاکڑ اسرار احمدؒ)