قربانی کا اصل فلسفہ اور پیغام |
(ندائے خلافت - 2025 | شمارہ نمبر 21)۔
فلسفہ قربانی میں بات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کی قربانی سے شروع ہوتی ہے۔وہ بیٹا جو انھیں پیرانہ سالی میں ملا تھا،عمر کے اُس حصہ میں جب انسان اولاد کا تصور نہیں کرتا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑی خواہش کے بعد بیٹے کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں لیکن حکم ہوتا ہے تو اسی بیٹے کی قربانی کے لیے نکل کھٹرے ہوتے ہیں،اور جب اُس کی گردن پر چھری رکھتے ہیں تو وہ گویا تمام محبتوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت و اطاعت اور اُس کے احکامات کو بجالانے پر قربان کردیتے ہیں۔یہ حج اور قربانی کا اصل فلسفہ اور پیغام ہے۔ہماری زندگی جس ڈگرپر گزرتی ہے،جن جن میدانوں میں جولانیاں دکھاتی،اور جس مورچے اور محاذ پر اپنے آپ کو منواتی ہے،یہ زندگی اللہ رب العالمین کی اطاعت اور اس کے حکم کی بجا آوری میں صرف ہونی چاہیے اور اس راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔خواہشات،تمناؤں اور آرزؤوں،اور کل سے بہتر آج اور آج سے بہتر کل کے جذبے کی قربانی کے لیے ہر دم تیار رہنا چاہیے۔حج اور قربانی کا یہ فلسفہ ہر لمحے ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ زندگی اس ڈگر پر گزرے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتائی ہے۔یہ فلسفہ اگر جذب و انجذاب کے مراحل سے گزرے،دل و دماغ کے اندر سرایت کرے اور رگ و ریشے کے اندر خون کی طرح دوڑے تو پھر وہ انسان اور وہ اجتماعیت و جود میں آتی ہے جو معاشرے کے اندر بڑی شے کو مسخر کرنے کی صلاحیت کی حامل ہوتی ہے۔
سید منور حسن (سابق امیر جماعت اسلامی)
| |
|