(ندائے خلافت - 2025 | شمارہ نمبر 13)۔
رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ،رمضان،آخر کا گزر گیا ۔مگر اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ گیا کہ ہمیں اس کی رحمتوں و برکتوں سے کتنا فیض حاصل ہوا؟اس سوال کا حقیقی اور زندہ جواب رمضان کے بعد کے ایام میں سامنے آجاتا ہے۔
لوگوں کی غالب اکثریت عید کے چاند کی اطلاع کے ساتھ ہی رمضان کی برکات کو فراموش کردیتی ہے۔ان کے لیے عید کے ایام خوشی کے نہیں غفلت کے ایام بن جاتے ہیں۔نمازوں کی پابندی ختم،قرآن مجید کی تلاوت سے فراغت اور یاد الٰہی،ذکرو دعا سے صبح و شام خالی ہوجاتے ہیں۔رمضان کے بعد نفلی عبادات میں کمی اتنا بڑا سانحہ نہیں مگر ان سے بالکل ہاتھ اٹھالینا،گناہوں پر دلیر ہوجانا اور فرائض کا ترک کردینا اس بات کی علامت ہے کہ رمضان میں نظر آنے والی نیکی ایک درجہ میں شاید موسمی بخار یا مذہبی فیشن کی ایک شکل تھی۔یہ کسی حقیقی معرفت،احساس اور ایمان کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔حدیث کے مفہوم کے مطابق ایسے روزے ایمان و احتساب کے بغیر رکھے گئے اور ایسی شب بیداری ایمان و احتساب کے بغیر کی گئی۔چناچہ یہ روزے اور شب بیداری انسان میں حقیقی تبدیلی نہ لاسکے۔یہ موسمی بخار تھا جو اتر گیا۔مذہبی فیشن تھا جو وقت کے ساتھ رخصت ہوگیا۔اگر ایمان حقیقی ہوتا اور احتساب ہوتا تو کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آتی ۔کچھ نئے اہداف طے ہوتے۔کچھ کمزوریاں رخصت ہوتیں۔زندگی میں بہتری ضرور آتی۔ سو اگر رمضان میں بھی ہم نے اپنا احتساب نہیں کیا تو رمضان کے بعد ہی سہی،ایمان کے تھر مامیٹر سے اپنا درجہ حرارت ضرور دیکھیے۔یہ موسمی بخار تھا تو اتر گیا ہوگا۔ورنہ ایمانی حرارت نے عمل میں ضرور بہتری پیدا کی ہوگی۔ان شاء اللہ!
(ابو یحٰیی)کے کالم سے اقتباس