(ندائے خلافت - 2025 | شمارہ نمبر 10)۔
’’اور (اے بنیﷺ!)جب میرے بندے آپؐ سے میرے بارے میں سوال کریں تو(ان کو بتا دیجیے کہ)میں قریب ہوں۔میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی(اور جہاں بھی)وہ مجھے پکارے،پس اُنہیں چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں،اور مجھ پر ایمان رکھیں،تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں۔‘‘ (البقرہ:186)
رمضان و قرآن اور صیام و قیام کا جو مشترک نتیجہ نکلے گا وہ یہ ہے کہ روح بیدار ہوگی،تقویت پائے گی اور اللہ کی طرف متوجہ ہوگی۔اسی لیے مذکورہ آیت میں خوشخبری ہے کہ میں کہیں دور نہیں ہوں۔مجھے تلاش کرنے کے لیے کہیں بیابانوں میں جانے اور پہاڑوں کی غاروں میں تپسیائیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں تمہارے بالکل قریب ہی ہوں،گویا
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
تمام قدیم مذاہب میں اللہ کے ساتھ بندوں کے ربط و تعلق کا مسئلہ ہمیشہ ایک لا ینحل گتھی بنا رہا ہے۔اکثر مذہبوں نے تو اللہ کو اتنا دور اور اتنا بعید فرض کرلیا ہے کہ اس تک براہِ راست رسائی گویا ممکن ہی نہیں۔قرآن مجید نے اس وہم کو دور کرکے صاف صاف بتادیا ہے کہ تم جسے دور سمجھ رہے ہو ،وہ دور نہیں ہے،تمہارے بالکل قریب ہے۔اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب چاہو اور جہاں چاہو اُس سے ہم کلام ہوجاؤ۔
اللہ تعالیٰ تک رسائی کے لیے تمہاری دعا کسی پوپ،کسی پادری،کسی پروہت،کسی پجاری،کسی پنڈت یا کسی پیر کے واسطے کی محتاج نہیں ہے ۔اللہ کا ربط و تعلق بندے کے ساتھ براہِ راست ہے۔یہاں کسی واسطے کی ضرورت ہے ہی نہیں!ہاں البتہ اس تعلق کے مابین حجاب ہم خود ہیں۔ہماری حرام خوری،ہماری غفلتیں حجاب بنی ہوئی ہیں۔اپنی غفلتوں کا پردہ چاک کیجئے۔اللہ کی جناب میں تو بہ کیجئے! وہ ہرآن ،ہر لحظہ آپ کی دعا کو سننے والا ہے۔وہ ہمیشہ ہی قریب رہتا ہے اور رمضان میں تو اس عموم میں خصوص پیدا ہوجاتا ہے۔
عظمتِ صیام و قیام رمضان(ڈاکڑ اسرار احمد )