(ندائے خلافت - 2025 | شمارہ نمبر 01)۔
”یہ سرد مہری جس کا اظہار اس اجتماع کے موقع پر ہوا ہے،کوئی اتفاق چیز نہیں ہے جو اس وقت رونما ہوئی ہے۔ مجھے معلام ہوا ہے کہ متعدو مقامات پر ہماری جماعت کے بعض یا اکثر ارکان ہفتہ وار اجتماعات میں شریک نہیں ہوتے یا شریک ہوتے ہیں تو التزام کے ساتھ نہیں بلکہ’’ گنڈے دار طریقے ‘‘ سے جب دنیا کی کوئی چھوٹی بڑی مشغولیت انہیں نہ ہوئی اور تفریح کو بھی جی چاہا تو مقامی جماعت کے اجتماع میں آگئے۔بعض مقامات پر ہفتہ وار اجتماع کا قاعدہ ہی سرے سے منسوخ کردیا گیا اور بہت سے ارکان ایسے بھی ہیں جو جماعت میں داخل ہوئے اور جان بوجھ کر خدا سے عہد غلامی تازہ کرنے کے بعد ویسے ہی ٹھنڈے،بے روح اور جامد و ساکن ہیں جیسے اس سے پہلے تھے۔نہ ان کی زندگی میں کوئی تغیر ہوا،نہ جاہلیت کے ماحول سے ان کی ٹھنی،نہ دعوت الی اللہ کے لیے ان میں کوئی سرگرمی پیدا ہوئی اور نہ ہمسفر رفیقوں کے ساتھ وابستگی اُن میں پائی گئی۔
ہم نے ابتدا میں جماعت قائم کرتے وقت بھی کہہ دیا تھا اور اس کے بعد بھی بار بار کہتے رہے ہیں کہ ہمیں کثرت تعداد کی نمائش کرنے کے لیے فضول بھرتی نہیں کرنی ہے۔ہمیں وہ فربہی مطلوب نہیں ہے جو جسم کو طاقتور بنانے کی بجائے الٹا بوجھل بنادے۔ہمیں صرف ان لوگوں کی ضرورت ہے جنہیں فی الواقع کچھ کرنا ہو اور جو کسی خارجی دباؤ سے نہیں بلکہ ایمان کے اندرونی تقاضے سے خدا کے دین کو قائم کرنے کی سعی کرنا چاہتے ہیں۔لیکن افسوس ہے کہ ان پے درپے تصریحات کے باوجود اس قسم کے لوگ ہمارے اس نظام میں بھی داخل ہوگئے جو اس سے پہلے محض مسلمانوں کے گروہ سے وابستہ ہونے کو ہی نجات کے لیے کا فی سمجھ لینے کے عادی رہے ہیں۔ان سے میں عرض کروں گا کہ اگر آپ کو یہی کچھ کرنا تھا تو اس غریب جماعت کو خراب کرنا کیا ضروری تھا۔آپ کو اگر فی الواقع اس نصب العین سے ہمدردی تھی جس کی خدمت کے لیے ہماری جماعت بنی ہے اور اس ہمدردی نے آپ کو ہم سے تعلق پیدا کرنے پر آمادہ کیا تھا ، تو آپ کی ہمدردی کا کم سے کم تقاضایہ ہونا چاہیے تھا کہ آپ اس جماعت کو خراب کرنے سے پرہیز کرتے اور وہ بیماریاں اسے نہ لگاتے جن کی وجہ سے مسلمان مدت ہائے درازسے کوئی صحیح کام نہیں کر سکے ہیں‘‘۔
روداد جماعت اسلامی(حصہ دوم،ص:107،106)