Menu
فہمِ قرآن کے دو درجے ہیں
از: ڈاکٹر اسرار احمدؒ
ایک ہے تذکر ّبالقرآن اور دوسرا ہے تدبر ّبالقرآن۔ تذکر بالقرآن یہ ہے کہ قرآن مجید کی کسی آیت یا سورۃ سے اس کا اصل سبق اخذ کر لیا جائے۔ اس پہلو سے قرآن مجید ایک بہت آسان اور کھلی کتاب ہے۔ قرآن مجید خود دعویٰ کرتا ہے : امت{وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿﴾} (القمر) ’’ہم نے قرآن کو تذکّر (نصیحت اور یاد دہانی)کے لیے آسان کر دیا ہے تو ہے کوئی جو اِس سے نصیحت اخذ کرنا چاہے؟‘‘ تدبّر کے معنی غور و فکر کے ہیں۔ یعنی قرآن حکیم کے ایک ایک لفظ میں غوطہ زنی کرنا اور لغت و بیان کے ہر ہر پہلو کو مدّ نظر رکھتے ہوئے غور و فکر کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس اعتبار سے حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی گہرائیاں اتھاہ ہیں۔ اس پر غور و فکر کا حق ادا کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں۔ پوری پوری زندگیاں کھپانے کے باوجود کوئی انسان کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس قرآن کی گہرائیوں کو ناپ لیا ہے۔

(نجات کی راہ)

تفصیلی مطالعہ کے لیے کلک کریں۔

Related Media