Menu
پیر اور مرید۔۔۔ رشتہ کیا؟
از: ڈاکٹر اسرار احمدؒ
لفظ ارادہ سے اسم فاعل ’’مرید‘‘ بنتا ہے۔ ہمارے یہاں تزکیۂ نفس کا جو نظام عرصۂ دراز سے چلا آرہا ہے اس کا نقطۂ آغاز ہی یہ لفظ ’’مرید‘‘ ہے۔ ’’مرید‘‘ سے مراد وہ فرد ہے جو اس بات کا ارادہ کرلے کہ وہ دین پر چلے گا۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی ایسے شخص سے اپنا تعلق جوڑتا ہے جس پر اسے اعتماد ہو کہ یہ شخص مخلص ہے‘دکاندار نہیں ہے۔ مزید برآں یہ اطمینان بھی ہو کہ یہ دین کو جاننے والا اور بذاتِ خود پابند شریعت اور متقی شخص ہے‘ اور یہ کہ اس کی صحبت میں اس کو دین پر چلنے میں تقویت حاصل ہوگی۔ ارادہ تو اس کا اپنا ہوتا ہے‘لیکن اس کے لیے تقویت بھی ضروری ہوتی ہے۔چنانچہ اس مقصد کے لیے وہ کسی متقی و دین دار عالم کو اپنا مرشد تسلیم کرکے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے‘یعنی بیعت کرکے یہ قول و قرار اور عہد کرتا ہے کہ وہ اپنے اس مرشد کی ہدایات پر عمل پیرا ہوگا اور دین پر چلے گا۔ اس تشریح سے معلوم ہوا کہ ’’مرید‘‘ وہ شخص ہے جو دین پر کاربند ہونے کے ارادے سے کسی صاحب حال سے تعلق استوار کرے۔اور جس سے تعلق قائم کیا جائے وہ مزکی و مربی اور مرشد کہلاتا ہے‘جس کے لیے فی الوقت ہمارے ہاں عام طور پر لفظ ’’پیر‘‘ مروّج ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم نے اپنی بے عملیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے جہاں دین کی بہت سی باتوں اور بہت سے کاموں کو بدنام کررکھا ہے‘وہاں پیری مریدی کے سلسلے کو بھی سخت بدنام کیا ہے۔ پھر واقعتا یہ سلسلہ ہمارے معاشرے میں خالص دکانداری اور محض رسم بن کر رہ گیا ہے۔ اِلاّ ماشاء ﷲ !

دینی فرائض کا جامع تصور ( ڈاکٹر اسرار احمد ؒ)

تفصیلی مطالعہ کے لیے کلک کریں۔

Related Media